سماجی جہالت Social Ignorance
ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے اور باشعور نہیں ہیں لہزا غلط رسومات اور غلط طریقہِ علاج میں گھرے ہوۓ ہیں۔ پھر مناسب جنسی تعلیم دینے کا سرے سے ملک میں رواج ہی نہیں ہے تو عام بندہ جنسی تعلیم اول تو لیتا نہیں اور اگر وہ اییسی تعلیم حاصل کرنا بھی چاۓ تو باقاعدہ نہ تو کویؑ ادارہ ہے اور نہ ہی اس معاشرے میں اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اپ اپنے استاد ہا محلے کے مولوی سے اس بارے پوچھ کر تو دیکھیں آپ کو اسکا جواب مل جاۓ گا۔ ہم یہاں موزوں کے حساب سے لکھتے ہیں۔
ایسی بیماریاں جو صرف ڈپریشن سے ہوتی ہیں جانیے
-
شادی لیٹ کر دی جاتی ہے۔
کنسے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 93٪ لڑکیاں خود لذتی کرتی ہیں۔ کلاسز کی تحقیق یہ ہے کہ ناروے سویڈن کی 66٪ لڑکیاں خود لزتی کرتی ہیں اور اکثر و بیشتر لڑکے جلق لگاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مناسب جلق لگانے سے زہنی آسودگی اور جنسی تسکین حاصل ہوتی ہے اور اسکا انجام برا نہیں ہے۔ مگر لوگ اسکو زہنی گناہ خیال کرتے ہیں جوکہ جسمانی ضرر سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ یہ بھی ایک قدرتی امر ہے کہ ہر نوخیز کو خود لزتی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر انجینؑر بننے اور کویؑ پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرنے کے چکر میں شادی لیٹ کر دی جاتی ہے اور انکو مجبوراً مجرد بن کر رہنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات شادی 30-32 سال کی عمر تک لیٹ کر دی جاتی ہے۔ میری اور میرے بھایؑ کی شادی بھی 30 سال کے بعد کی گیؑ تھی۔ اس دوران اگر کویؑ زنا کر لے تو وبال والدین پر آتا ہے۔ پھر اگر مناسب تعلیم حاصل کر بھی لی جاۓ تواچھے رشتوں کے چکر میں شادی لیٹ کر دی جاتی ہے۔ خاص کر پڑھی لکھی لڑکیاں جب کمانا شروع کرتی ہے تو انکو پڑھا لکھا معقول لڑکا نہیں ملتا اور وہ مجرد رہنا پسند کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مجردوں کی کمی نہیں ہے۔
شادی کب کریں؟ ویسے تو بلوغت کے فوراً بعد مناسب جنسی رہنمایؑ کے بعد شادی کرنی چاۓ۔ کیونکہ جب شادی کے بعد جنسی ہارمون کا مناسب اخراج ہوتا رہتا ہے تو انسان دوسرے اچھے کام زیادہ اچھے طریقے سے انجام دیتا ہے۔
کنوارے لڑکے اور لڑکیاں اپنی جنسی صلاحیت کو چیک کرنے کے لیے غلط راستے پر چلتے ہوۓ بری عورتوں اور ہم جنس پرستی کی طرف نہ جایں ورنہ ایسی بیماریاں لگ سکتی ہیں جنکا علاج نہیں ہوتا۔ ہفتہ میں 1 اور مہینہ میں 4 روزے کم سے کم رکھ کر نفسانی خواہش کو مار دیں۔ یا پھر شادی کر لیں۔
2۔ پیار محبت صرف شوہر کےلیے جایؑز ہے۔
محبت واقعی اندھی ہوتی ہے اور یہ اندھوں کا کام ہے۔ عشقِ حقیقی میں خدا کی زات سے محبت کی جاتی ہے اور اسکو اپنا معبود مان کر سرِ تسلیم خم کرتے ہوۓ اسکی مانی جاتی ہے۔ ایسے بہت سارے دنیاوی محبت کے قصے مشہور ہیں کہ جن کو دیکھ پڑھ کر پاگل پن کا احساس ہوتا ہے۔ ایک ایسی لڑکی جو شادی سے پہلے کسی اور سے بوسے لیتی ہے گلے لگاتی ہے کیا وہ ہونے والے شوہر سے خیانت نہیں کر رہی ہوتی۔ یاد رکھیں یہ پیار محبت صرف اور صرف ڈراموں اور فلموں میں ہی اچھے لگتے ہیں۔ اگر آپ کو واقعی ہی کویؑ اچھا لگتا ہے تو اپنے گھر والوں کو راضی کر لیں ورنہ اپنی زندگی کو اچھا بنایں کیونکہ اس عمر میں آپ کچھ بن کر اپنے مستقبل کو سنوارنا ہوتا ہے۔ اور اگر آپ نے یہ قیمتی وقت ایسے فضول کاموں میں ضایع کر دیا تو محبت ملے نہ ملے زندگی اجیرن ضرور ہو جاۓ گی۔
طبیب کے متعلق چند ضروری ہدایات
Insert Post Ads
مریض کے متعلق چند ضروری ہدایات
3۔ جنسی تعلیم کتنی ضروری ہے؟
ایسا اکثر ہوتا ہے کہ بڑی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں گمراہ کرتی ہیں۔ وہ انکو خود لزتی کے طریقے سیکھا دیتی ہیں۔ بعض اوقات جنسی ہیجان بھی انکو خود لزتی سیکھا دیتا ہے۔ جدید تمدن میں جنسی جزبات کو بھڑکانے کے تو بہت سارے سامان موجود ہیں مگر اسکی آسودگی کے وسایؑل کم ہیں۔ اگر جنسی تعلیم واقعی اتنی گندی چیز ہوتی تو کلامِ پاک میں اسکا جابجا زکر کیوں آتا؟ قرآنِ حکیم میں اکثر مقامات پر زن و شوہر کے تعلقات کے ساتھ ساتھ نطفہ بننے کا عمل اور اسکے بڑھنے کے مدارج کو بھی نہایت عالمانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ زمانہؑ حمل کو بیان کیا گیا ہے اور دودھ پلانے کی مدت کا تعین کیا گیا ہے۔ نیز یہ بھی قرآنِ کریم میں بتایا گیا ہے کہ جنسی ملاپ جایؑز ہے بلکہ عبادت کا درجہ رکھتا ہے اور کن طریقوں سے اسکا ارتکاب غلط ہے۔
عورت کے جنسی سکون کے لیے مرد کا دراز قد اور عضو کا لمبا ہونا ضروری نہیں بلکہ تین چیزیں ہونی چاۓ۔ (1) عضو میں تناؤ ہو (2) جلد انزال نہ ہو (3) بیوی کو جنسی تسکین دینے کی طریقوں سے واقف ہو۔ یہی تین جیزیں عورت کے لیے مرد مین کشش کا سبب ہیں۔
امید ہے کہ والدین پروفیسر ارشد کی کتاب کا خود بھی مطالعہ کریں گے اور اپنے بالغ بچوں کو بھی دیں گے۔ اگر آپ نہیں دیں گے تو آپکے بچے گلی محلے سے غلط معلومات لے کر خراب ہوں گے۔
4۔ بلوغت کے بعد بھی جنسی خواہش کا ادراک نہیں ہوتا۔
جن گھرانوں میں سخت پردے کا وراج ہے اور جو بچے جنسی معلومات سے محروم ہوتے ہیں انکو اپنے جنسی جزبے اور اسکو کسی اچھے کام میں لگانے کا ہنر نہیں آتا۔ برٹرنڈرسل لکھتے ہیں “میں چاندنی راتوں میں پاگلوں کی طرح ادھر ادھر گھوما کرتا تھا اس کا سبب شدید جنسی خوہش تھی مگر مجھے اس زمانے میں اس بات کا علم نہیں تھا“۔
شادی کے بعد مباشرت کویؑ بری چیز نہیں بلکہ اللہ کے نبی ﷺ کے مطابق مباشرت ایک پاکیزہ نیکی، صدقہ، جنسی خواہش جایؑز تکمیل اور نسل انسانی کو بڑھانے کا خوشگوار زریعہ بھی ہے۔
5۔ ہر ملک کے جنسی رویے مختلف ہوتے ییں۔
پاکستان میں تو اس طرح جنسیات پر کتب میسر نہیں ہیں جس طرح بعض دوسرے ممالک میں نہ صرف جنسیات پر تفصیل سے بحث کی گیؑ ہے بلکی بعض جگہ سماجی جہالت کی نشاندہی بھی کی گیؑ ہے۔ مثلا ہندؤں کی سب سے مقدس جنسیات پر مبنی کتاب کام شاستر میں بعض جنسی رویوں کو تفصیل سے موزوںِ بحث بنایا گیا ہے۔ کام شاستر دوسری صدی قبل از مسیح میں واتسیان نے لکھی تھی۔ کام شاستر کا ترجمعہ یورپ کی بڑی بڑی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ ہندؤں کے ہاں آلہِ تناسل کو شیودیوتا اور اندامِ انہانی کو شکتی دیوی کی علامات مانا جاتا ہے۔ کوک شاستر کتاب بھی بعد میں کام شاستر سے اکتباس ہے جو دمودرگپت نے لاڈلا خان لودھی کر فرمایؑش پر لکھی تھی۔ جلال الدین طوسی اپنی کتاب الالنیاح فی علم النکاح میں جنسی مباحثے ملتے ہیں۔ عیسایؑوں نے جنسی ملاپ کے ساتھ جرم و گناہ کے جو مریضانہ احساسات وابستہ کیۓ ہندؤں، ہونانیوں، عربوں اور چینیوں میں ان کا نام و نشان نہیں ملتا۔ گلیساۓ روم نے کہا کہ آدم اور حوا کو مقاربت کے جرم سے جنت سے نکالا اور انکا یہ جرم ہر بچے کو ورثے میں ملتا ہے۔ ہہں سے یورپ کی عورت دشمنی کا بھی آغاز ہوا۔ پھر آہستہ آہستہ یورپ کے لوگ کلیسا کی چال بازیوں سے آگاہ ہونا شروع ہو گۓ اور کلیسا کے خلاف ہو گۓ اسی لیے 18 صدی کو جنسی بے راہ روی کا زمانہ مانا جاتا ہے۔ بعض اہلِ عرب میں عورتوں کا بھی ختنہ ہوتا ہے۔ وحشی افریکی قبایؑل میں ایامِ حیض میں عورتوں کو بستی سے دور جھونپڑیوں میں رکھا جاتا ہے ان کے خیال میں حایؑضہ خطرناک اور ناپاک ہوتی ہے۔
صرف عورتوں میں ہونے والے کینسرز
بغیر شادی کے پیدا ہونے والی جنسی پیچیدگیوں پر قابو پانے کے لیے سویڈن میں تجربہ کیا گیا ہے۔ وہاں حکومت بغیر شادی کے لڑکے اور لڑکی کو رہنے کی قانونی آزادی دیتی ہے اور اسکے ہونے والے بچے کو سارے ریاستی حقوق حاصل ہیں۔ اس کو رفاقت کی شادی یا Sambo کہتے ہیں اور سویڈن کی قل آبادی 92 لاکھ ہے جس میں سے 13 لاکھ کے قریب لوگ رفاقت کی شادی والے رہتے ہیں۔ ایسی شادی ناروے، اسٹونیہ اور فرانس میں بھی ہیں۔ یہ رسم کویؑ نیؑ نہیں ہے قدیم وحشی قبایؑل میں آج بھی ایسی رسمیں موجود ہیں۔ ہندوستان کے علاقے یو پی میں موریا قبایؑل میں ایک رسم گھوٹل ہے جس میں رات بھر لڑکے اور لڑکیاں رہتی ہیں اگر کویؑ حاملہ ہوجاۓ تو اپنے منسوب کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہے۔ ہر ملک کی اپنی روایات ہیں افریکی فربہ عورت کے شیدایؑ ہیں۔ اکبر دلی کے گھر میں خواجہ سرا اور عورتیں بھیج کر حسین عورتوں کا سراغ لگایا کرتا تھا اور ان کو اپنے حرم میں داخل کر لیتا تھا اسے تورہ چنگیزی کہتے ہیں۔ تورہ چنگیزی کا رواج بعض دوسرے راجوں اور ترکوں میں بھی تھا۔ سماٹرا میں یہ رواج ہے کہ جب کسی امیر، رعیت یا بازاری کی لڑکی جوان ہوتی ہے تو سلطان کو پیش کی جاتی ہے۔
جنگ کے بعد مفتوح عورتیں فاتح پر حلال ہو جاتی تھیں اور یہ رسم آج بھی قاؑم ہے۔ یہودیوں کے ہاں سوتیلی بہن سے شادی جایؑز تھی۔ عربوں کے ہاں یہ رسم اسلام کے بعد بھی قایؑم تھی کہ چند سال سسر کی خدمت کی جاۓ۔ فرعونِ مصر اور کیسراۓ ایران جایؑداد بچانے کی خاطر اپنی سگی بہنوں اور بیٹیوں سے شادی کر لیتے تھے۔ راجہ داہر والیؑ سندھ نے اپنی سگی بہن رانی بایؑ سے بیاہ رچایا ہوا تھا۔ آج بھی بنگال کے سنتھالوں اور جنوبی ہند کے نایؑروں میں ایک ہی بیوی کے متعدد شوہر ہوتے ہیں۔ قدیم جاپان، اسراییؑل، ہند اور چین میں دختر فروشی کا رواج تھا۔ ایران میں آج بھی ماں شِیربہا یعنی اس دودھ کی قیمت وصول کرتی ہے جو اس نےاپنی بیٹی کو پیلایا تھا۔ یہودی اپنے ہی قبیلے میں شادی کرتے تھے۔ گوتم بدھ نے رشتے کے چھٹے ردجے تک شادی کو ممنوع قرار دیا تھا۔ یہودیوں میں یہ رواج بھی تھا جو کسی کی آبروریزی کرتا اسی کے ساتھ نکاح کرنا پڑتا تھا۔ سکاٹ لینڈ میں رواج تھا کہ لڑکا اور لڑکی شواہد کے سامنے بیان دیتے کہ وہ میاں بیوی کی طرح رہتے ہیں تو انکا نکاح خود بخود ہو جاتا تھا۔ تقریباً ایسی ہی شادی کی رسم شمالی یورپ میں آج راقم نے خود دیکھی ہے۔ جبکہ متعہ کی رسم بہت سارے اہلِ شیعہ کے ہاں آج بھی ہے۔ ہندو راجے اپنے بیٹی کی شادی کے لیے سونمبر رچاتے تھے۔ اس میں لڑکی جس لڑکے کے گلے میں مالا ڈال دیتی وہی اسکا شوہر ہو جاتا تھا۔
ہندؤں کے ہاں شادی کی 8 قسمیں ہیں جن کی تفصیل دیا نند (ستیارتھ پرکاش) نے لکھی ہیں۔ براہم وواہ: دولہا اور دلہن مجرد رہ کر تعلیم حاصل کرتے پھر باہمی رضامندی سے شادی کر لیتے۔ آرش وواہ: دولہا سے کچھ لے کر شادی کرنا۔ پراجا پتیہ وواہ: دھرم کی ترقی کو مدِنظر رکھ کر نکاح کرنا۔ سویؑمبر: اسکا زکر اوپر ہو چکا۔ گاندھرو وواہ: بغیر کسی قاعدہ قانون کے لڑکے لڑکی کا آپس میں مقاربت کرنا۔ راکش وواہ: جنگ کے زریعے زبردستی یا فریب سے لڑکی حاصل کرنا۔ پیشاج وواہ: سویؑ ہویؑ نشہ میں دھت لڑکی سے بلجبر مقاربت کرنا۔ برات اس زمانے کی یادگار ہے جب ایک قبیلے والے دوسرے قبیلے کی عورتیں لے بھاگتے تھے۔ مہر اور جہز کی رسم بھی اسی زمانے سے چلی آ رہی ہے جب دلہن کو خریدا جاتا تھا۔ ایک رومن عورت نے کہا تھا کہ عجیب بات ہے کہ ہمیں اپنا آقا بھی خریدنا پڑتا ہے۔ سامی اقوام میں بستر کی چادر ملاحظہ کی جاتی تھی دلہن کی بکارت کا ثبوت ملنے پر یہ چادر گھر گھر میں پھرایؑ جاتی تھی۔
صغرسنی کی شادی کی قباحتیں تو ہندؤں میں بہت عام ہیں۔ اکبر نے اس لعنت کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر پندتوں نے ایک نہ چلنے دی۔ ان کی تفصیل مِس کیتھرین میو نے اپنی لیجسلیٹو اسمبلی کی یاداشتوں میں درج کی ہے کیتھرین نے اسکی تفصیل ہسپتالوں کے رجسٹرون سے لی تھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ ایک آٹھ سالہ دلہن کو لہولہان ہسپتال لایا گیا وہ درد کی شدت سے رات بھر ایڑیاں رگڑتی رہی دوسرے دن اسکا پتی آیا اور اسے واپس چلنے کا مطالبہ کرنے لگا۔ اسلام میں نابالح لڑکی کا نکاح جایؑز ہے مگر رخصتی بلوغت کے بعد ہی ہو سکتی ہے اور اگر وہ نکاح توڑ دے تو کویؑ روک نہیں سکتا۔
6۔ بکارت کو عورت کی سب سے بڑی خوبی قرار دیا گیا۔
یہ بھی ایک معاشرتی خام خیالی ہے کہ بردہ بکارت والی لڑکی پاکباز ہے۔ ایک باپردہ لڑکی کی بکارت کسی جنسی فعل کے بغیر ضایع ہو سکتی ہے۔ جب ہندؤں میں تمدن کا آغاز ہوا تو بکارت کو غیر ضروری بلکہ مزموم سمجھا جاتا تھا۔ قضیب اور اندامِ نہانی کو بارآوری اور زرخیزی کی علامت سمجھ کر ان کی پوجا آج بھی کی جاتی ہے۔ عورت کو مرد پر سیادت حاصل تھی اور املاک کی وارث عورت ہی سمجھی جاتی تھی۔ البتہ زرعی انقلاب کے بعد حالت الٹ ہو گیؑ۔
ہمارے ھاں یہ بات بھی مشہور ہے کہ سہاگ رات مباشرت نہ کی جاۓ تو ولیمہ حرام ہو جاتا ہے۔ اس میں کویؑ حقیقت نہیں ہے۔
7۔ شیرخوار بچے میں بھی جنسی خواہش ہوتی ہے۔
فرایؑڈ کے مطابق شیر خوار بچے میں بھی جنسی جزبہ موجود ہوتا ہے مگر وہ اس سے نا بلد ہوتا ہے۔ اسکے ہونٹوں پر جنسی جبلت اور جنسی حس جمع ہو جاتی ہے اسی لیے چھوٹے بچوں کو بوسہ کرنا سیکھا دیا جاتا ہے۔ بچہ اپنے اعضاۓ تناسل کے لمس سے بھی اک گونہِ لزت محسوس کرتا ہے۔ ان کو ٹٹولٹا ہے اور انکے ساتھ کھیلتا ہے۔ ماں اسکو روک دیتی ہے تو بچے کے اندر ان اعضاء کے بارے منفی فکر کارگر ہوجاتی ہے اور بچہ کے زیہن میں جنس کے ساتھ جرم اور گناہ کے احساسات وابستہ ہو جاتے ہیں۔ ماں ڈانٹ ڈپٹ کر ان سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ infant behavior development journal کی ایک تحقیق کے مطابق ٹیسٹوسٹیرون testosterone اور اسٹروجن estrogen نامی سیکس ھارمون شیرخوار میں بھی ہوتے ہیں مگر یہ بچے کی نشونما خاص کر بولنا سیکھاتے ہیں۔
پھر شیرخوارگی سے بلوغت تک جنسی خواہش پسِ منظر میں چلی جاتی ہے۔ لیکن اسکا بالواسطہ اظہار لڑکے اور لڑکوں کے کھیلوں میں ہوتا رہتا ہے۔ بڑا بچہ چھوٹے بچے کو بالکل ماں کی طرح دودھ پلانے کی کھیل نما کوشش اس لیے کرتا ہے کہ اسنے اپنے چھوٹے بہن بھایوں کو ماں کا دودھ پیتے دیکھا ہے۔ لیزا ماں کو احتیاط کرنی چاۓ۔
8۔ ہمارے ملک میں بے راہ روی ہے مگر بیان نہیں کی جاتی۔
ماں کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے سے جدا نہ ہونے دے۔ کیزنز میں چچا زاد، ماموں زاد وغیرہ سے احتیاط لازم ہے۔ کیؑ لڑکیاں اپنے ہی عزیزوں کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ لیکن یہ باتیں بتایؑ نہیں چھپایؑ جاتی ہیں۔ دوسری طرف اوایؑل عمری میں ہی شادی کر دی جاتی ہے۔ آج بھی ہمارے دیہات میں جب لڑکا ہل چلانے لگتا ہے تو اسکی شادی یا نکاح کر دیا جاتا ہے۔
9۔ جسمانی لحاظ سے مرد اور عورت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
لڑکوں کو پورا جوان بننے کے لیے کیؑ سال لگتے ہیں جبکہ لڑکیاں چند ماہ میں پوری عورت بن جاتی ہیں۔ جسمانی لحاظ سے مرد عورت کی نسبت زہادہ تنومند اور جفاکش ہوتا ہے۔ شہ زور ہونے کے باعث وہ مہم جو اور دلیر ہوتا ہے۔ اسکے جسم کے خطوط اور زاویے سیدھے ہوتے ہیں۔ بلوغت کے وقت اسکے جسم میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں لیکن یہ مرحلہ اسکے لیے بالعموم کھٹن نہیں ہوتا۔ جبکہ عورت کے بدن کے زاویوں اور خطوط میں گولایؑ اور گدگداہت ہوتی ہے۔ اسکی چھاتیوں اور کولہے کے ابھار اس میں رعنایؑ اور دل کشی پیدا کرتے ہیں۔ ایام کا زمانہ ایک دوشیزہ کے لیے زیادہ کھٹن اور صبرآزما ہوتا ہے۔ ایام سے قبل اور دوران وہ بے چینی اور گھبراہت محسوس کرنے لگتی ہے۔ مرد کو اس نوح کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اس لیے اسکا مزاج زیادہ عموار ہوتا ہے۔ مرد کی زندگی میں دو مراحل نازک ہوتے ہیں ایک بلوغت اور دوسرا کہولت۔ لیکن عورت کو ہر ماہ ایام کے چکر میں آزمایؑش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پرحمل اور وضع حمل سخت کڑیاں علاوہ ہیں۔
مرد کو عورت میں صرف جنسی کشش نظر آتی ہے جبکہ عورت کی خط اندوزی کے ساتھ حمل اور وضع حمل کی سختیاں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ وہ مہینوں بچے کو کوکھ میں لیے پھرتی ہے اسکا جی اکثر خراب رہتا ہے چہرے پر زردی کھنڈ جاتی ہے۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے اور دردِ زہ اسکو بھنبھوڑ کر رکھ دیتا ہے جبکہ مرد اس دوران جنسی لحاظ سے نا صرف تیار ہوتا ہے بلکہ اسکی مقاربت کی خواہش لمبے دورنیے کے وقفے سے دوبارہ جاگ اٹھتی ہے۔
ہیویلاک ایس عورت کی جنسی خواہش کے بارے لکھتا ہے۔ عورت کی خواہش مرد کی جنسی خواہش کی بہ نسبت زیادہ مخفی ہوتی ہے۔ یہ خواہش زیادہ پیچیدہ اور دیر سے ابھرتی ہے اور تدریجاً نقطہ عروج کو پہنچتی ہے۔ یہ خواہش عورت کے جسم کے اعضاء میں زیادہ پھیلی ہوتی ہے اس لیے اسکا حلقہ اثر زیادہ وسیع ہوتا ہے مگر مرد جتنا قوی نہیں ہوتا پھر عورت کے جنسی خواہش ایام کے دنوں میں گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
عورت کو مرد کی طرح انزال نہیں ہوتا اسکی اندامِ نہانی سے ایک قسم کا سیال مادہ خارج ضرور ہوتا ہے لیکن یہ نقاہت کا باعث نہیں ہوتا۔ اس لیے اکثر مرد یہ سمجھتے ہیں کہ عورت میں مرد سے زیادہ جنسی طاقت اور خواہش ہوتی ہے جبکہ یہ غلط ہے۔ پھر ہفتہ یا مہینہ میں کتنی بار مقاربت کرنا چاۓ اسکا کلی انحصار مرد پر ہوتا ہے نہ کہ عورت پر کیونکہ مرد میں جنسی خواہش ہو گی توہی عضوِ تناسل استادہ ہوگا جبکہ عورت میں اس وقت خواہش نہ بھی ہو تو دورانِ مقاربت خواہش مرد جگا دیتا ہے۔
مردوں میں زیادہ تر بانجھ پن کی ایک ھی وجہ ہوتی ہے ان کے صحت مند نطفوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ جبکہ عورتوں کے بانجھ پن کی کیؑ وجوھات ہوتی ہیں۔ کبھی Fallopian Tube بند ہوتی ہیں یا انکی کویؑ بیماری ہوتی ہے۔ کبھی بیضہ دانی صیح طرح کام نہیں کرتی اور کبھی رحم میں سوزش ہو جاتی ہے۔ مختصراً عورت کے بانجھ پن کی پچیدہ وجوھات ہوتی ہیں۔ پھر عورت سن یاس کے بعد بچہ پیدا نہیں کر سکتی اسکا مطلب ہے کہ عورت کے پاس صرف 30-35 سال بچہ پیدا کرنے کے ہوتے ہیں جبکہ مرد 80 سال کی عمر میں بھی کافی حد تک فٹ ہوتا ہے۔ پھر سپرم عورت کے جسم میں 3 سے 5 دن تک رہ سکتا ہے جبکہ عورت کا بیضہ ہر ماہ میں ایک ھی دفعہ خارج ہوتا ہے وہ بھی صرف 24 گھنٹے ہی ٹھہرتا ہے۔
10۔ عشق کے چکر میں پڑنا سب سے بڑی جہالت ہے۔
- شیوپنہایؑر کے مابق مرد کا عشق اسکی جنسی آسودگی کے ساتھ ہی ماند پڑ جاتا ہے۔
- ژنگ کہتا ہے کہ اکثر لوگ اپنی محبوبہ سے فیض یاب ہونے کے بعد عشق و محبت کو بالاۓ طاق رکھ دیتے ہیں یہ عین فطرتی ہے۔
- ہارٹ مان کہتا ہے کہ عشق میں لزت کم اور درد زیادہ ہے عقل کا تقاضہ ہے کہ درد یا عشق سے اجتناب کیا جاۓ اور اس سے بچنے کا حل یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو آختنہ کرالے۔
- شیکسپیؑر کہتا ہے عشق بے مایہ اور گھٹیا چیزوں کو باوقار بنا دیتا ہے۔ مرد اظہارِ عشق کریں تو اپریل بن جاتے ہیں اور شادی کے بعد دسمبر بن جاتے ہیں۔
- سومرس مام کہتا ہے کہ عشق جنسی خواہش اور دوستی کے امتزاج کا نام ہے۔
- فرایؑڈ کہتا ہے کہ خللِ زہن جنسی فاقہ زدگی کا نتیجہ ہے۔
بہرحال بہترین زندگی وہ ہے جو علم سے رہنمایؑ حاصل کرے اور عشقِ حقیقی سے فیضان پاۓ۔
11۔ سبزی اچھی یا گوشت؟
درحقیقت پاکستان میں سبزیوں کو اتنی رغبت سے نہیں کھایا جاتا جتنا گوشت کھایا جاتا ہے۔ پھر ہر کسی کی کویؑ چیز پسند ہے تو کویؑ نا پسند۔ کیوں کہ کسی کو بیگن پسند نہیں ہوتے تو کوئی بھنڈیوں کے نام پر منہ بناتا ہے۔ کسی کو چقندر اور شلجم سے چڑ ہوتی ہے اور کسی کے پیٹ میں گوبھی کے نام سے درد ہونے لگتا ہے۔ اسمارٹ رہنے والے موٹاپے سے خوف زدہ رہنے والے آلوؤں سے الرجک ہوتے ہیں۔ البتہ بچے انہیں چپس اور فرنچ فرائز کی شکل میں پسند کرتے ہیں۔ اگر کچھ بن نہ پاۓ تو بازار سے فاسٹ فوڈ منگوا لیتے ہیں۔ نئی نسل نے تو جیسے سبزیوں کو گھر بدر کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ اپنی کم علمی کی وجہ سے وہ ایک ایسی نعمت کو ٹھکرا رہے ہوتے ہیں جو ان کی صحت و تندرستی کی حقیقی ضامن ہوتی ہے۔ جدید ریسرچ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ جو لوگ غذا میں سبزیوں کی مناسب مقدار شامل رکھتے ہیں ، ان میں بیماریوں کے امکانات کافی کم ہوتے ہیں۔ امریکی تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ کھانے کی شروعات اگر سبزی اور چکن کے ساتھ کی جائے، اور بعد میں روٹی یا چاول کھا لیے جائیں تو کھانے کی اس ترتیب کے ساتھ ناصرف وزن کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ ہماری اچھی صحت کا راز بھی کھانے کی اسی ترتیب میں پوشیدہ ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زائد الوزن اور فربہ افراد اگر اپنے کھانے کا آغاز سبزیوں اور پروٹین سے کریں اور آخر میں چاول یا روٹی کھا لیا کریں تو وہ کھانے کے بعد زیادہ بہتر محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ فایؑدہ ذیابیطیس والے مریض بھی لے سکتے ہیں۔ ٹھیک 30 منٹ بعد انکی شوگر 29٪ کم تھی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ گوشت خور کے مقابلے میں سبزی خور زیادہ صحت مند اور چاق و چوبند رہتے ہیں۔ ان میں آنتوں کے امراض بہت کم ہوتے ہیں اور ان کی خون کی نالیاں مضر صحت آلائشوں سے پاک رہتی ہیں ، جبکہ گوشت اور مرغن غذاؤں کا استعمال دل اور شریانوں کے امراض پیدا کر دیتا ہے۔ جو صحت کے متعلق مذید پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے اور ان کی زندگی ہمیشہ خطرے میں رہتی ہے۔ اس لئے تندرست رہنے ، خوش و خرم زندگی گزارنے اور طویل عمر پانے کے لئے سبزیوں کو افادیت کو سمجھیں۔ یاد رکھیں جان ہے تو جہان ہے۔
عورتوں میں انزال مردوں کی طرح نہیں ہوتا۔
پروفیسر ارشد جاوید کے مطابق عورتوں کو انزال نہیں ہوتا۔ اندام نہانی ابتداء میں ہی گیلی ضرور ہوتی ہے تاکہ مباشرت میں چکناہٹ ہو جاۓ۔ صرف 5٪ عوتوں جنسی عروج میں ایک خاص قسم کا مادہ خارج کرتی ہیں جو Skene Glands سے خارج ہوتا ہے۔ مرد سارے ہی ہر بار آرگیزم حاصل کر لیتے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ بھی لغو ہے کہ جنسی لطف اور بچے کی پیدایؑش کے لیے دونوں کا بیک وقت انزال ضروری ہے۔ یہ بات اب ہر کسی کو معلوم ہے کہ بچے کے لیے بیضہ صرف خاص دنوں میں ہی خارج ہوتا ہے۔ ھاں یہ بات سچ ہے کہ عورت ایک سے زاید طریقوں سے آرگیزم حاصل کرسکتی ہیں۔ (آرگیزم سے مراد دوران مباشرت نقطہ عروج تک پہنچنا ہے)۔ خواتین کی عظیم اکثریت ہمہشہ آرگیزم حاصل نہیں کرتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عورتیں ایک ھی مقاربت میں ایک سے زایؑد مرتبہ آرگیزم حاصل کر سکتی ہیں۔
1994 میں امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق صرف 33٪ سے کچھ کم عورتیں ہمیشہ آرگیزم حاصل کرتی ہیں۔

ONE DEVICE 100 TESTS
انتباسات
- جنسی مطالعے از علی عباس جلالپوری
- عروجِ شباب از ڈاکڑ فضل مبین احمد دہلوی
- بہارِ شباب
- رہنماۓ جوانی از پروفیسر ارشد جاوید
shafi June 1, 2018 سماجی جہالت Social Ignorance سماجی جہالت Social Ignorance Comments Off on سماجی جہالت Social Ignorance
Comments are Closed